" ہم سے تو دھوبی کا بیٹا بہتر رہ گیا"عشق کی بے مثال داستان جس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت نظام الدین اولیاء بیہوش ہوجاتے
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کیلئے پیدا فرمایا ہے، سورۃ الذاریات میں ارشادِ ربانی ہے: اور میں نے جن اور انسان اسی لئے پیدا کیے ہیں کہ وہ میری عبادت کریں۔ صرف اللہ کی عبادت ہی اصل مقصد نہیں بلکہ محبت کے ساتھ عبادت مقصود ہے، اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے بڑھ کر چاہنا انسان کیلئے بے شمار انعامات کا باعث اور اس کے ایمان کی دلیل ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا " تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب اور عزیز نہ ہو جاؤں" حضور نے محبت کا جو معیار مقرر کیا ہے ہم میں سے کتنے لوگ اس پر پورا اترتے ہیں، یہ سوچنے کی بات ہےاسی محبت کے بارے میں صوفی بزرگ حضرت نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ علیہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ " ہم سے تو دھوبی کا بیٹا ہی خوش نصیب نکلا، ہم سے تو اتنا بھی نہ ہو سکا " آپ یہ جملہ فرماتے اور بیہوش ہوجایا کرتے تھے۔ ایک بار مریدین نے حضرت سے پوچھا کہ دھوبی کے بیٹے کا ماجرا کیا ہے جس پر آپ نے فرمایا ۔۔۔
ایک دھوبی کے پاس محل سے کپڑ ے دھلنے آیا کرتے تھے، ان کا ایک بیٹا بھی تھا جو جوان ہوا تو کپڑ ے دھونے میں والدین کا ہاتھ بٹانے لگا، کپڑ وں میں شہزادی کے کپڑ ے بھی تھے، جن کو دھوتے دھوتے وہ شہزادی کے نادیدہ عشق میں مبتلا ہو گیا، محبت کے اس جذبے کے جاگ جانے کے بعد اس کے اطوار تبدیل ہو گئے، وہ شہزادی کے کپڑ ے الگ کرتا انہیں خوب اچھی طرح دھوتا، انہیں استری کرنے کے بعد ایک خاص نرالے انداز میں تہہ کر کے رکھتا، سلسلہ چلتا رہا آخر والدہ نے اس تبدیلی کو نوٹ کیا اور دھوبی کے کان میں کھسر پھسر کی کہ لگتا ہے یہ تو سارے خاندان کو مروائے گا، یہ تو شہزادی کے عشق میں مبتلا ہو گیا ہے، والد نے بیٹے کے کپڑ ے دھونے پر پابندی لگا دی، ادھر جب تک لڑکا محبت کے زیر اثر محبوب کی کوئی خدمت بجا لاتا تھا، محبت کا بخار نکلتا رہتا تھا، مگر جب وہ اس خدمت سے ہٹایا گیا تو لڑکا بیمار پڑ گیا اور چند دن کے بعد فوت ہو گیا۔
Comments
Post a Comment